Tuesday 27 October 2015

دیول شریف
شمالی تحصیل مری کی مثالی یونین کونسل

تحقیق و تحریر: عبیداللہ علوی


مورخ، انتھروپولوجسٹ، مترجم قرآن حکیم اور بلاگر

فون:  

03315446020
******************************
ضروری نوٹ
میرے پیارے دوست، شاگرد اور صحافی اشتیاق عباسی نے کچھ عرصہ قبل میری کتاب تاریخ و تمدن کوہسار کا ایک خاکہ دیکھا تھا اور کافی عرصہ سے اصرار کر رہے تھے کہ میں اسے تفصیل سے قلمبند کروں مگر کار جہاں کے دراز ہونے کی وجہ سے خواہش کے باوجود یہ پروجیکٹ تفصیلی طور پر مکمل نہ ہو سکا، اب جبکہ اشتیاق عباسی ایک آزاد صحافتی ادارے روزنامہ آئینہ جہاں اسلام آباد کے چیف ایڈیٹر ہیں انہوں نے اب کوہسار کی ممکنہ حد تک تمام سائیسی تحقیقی  اصولوں کے مطابق تاریخ لکھنے اور اپنے اخبار میں شائع کرنے کی دعوت دی ہے، میں اس کے لئے بائیو لوجی، جینیٹکس، انتھروپولوجی کے علاوہ عربوں اور جدید دنیا کے علم الانساب (اتھنالوجی)، زوالوجی اور علم التحقیق یا اپسٹیمالوجی (ایم فل میں پڑھائے جانے والی سائنس) سے بھی استفادہ کر رہا ہوں، حوالہ جات کیلئے انگریز مصنفین کی کتابوں اور مقالات (ریسرچ پیپرز) کی بھی قدم قدم پر ضرورت پڑتی ہے اس کیلئے میں انٹرنیٹ پر دستیاب لائیبریریوں کو بھی کھنگال رہا ہوں۔ میری یہ کاوش حرف آخر نہیں، میرے بعد آنے والے مجھ سے زیادہ قابل، ذہین اور علم کی دولت سے مالا مال ہوں گے، جہاں مجھ سے میری کم علمی کی وجہ سے غیر ارادی طور پر خطا ہوئی ہے وہ اسے درست کریں گے، مجھے آپ کے تعاون کی بھی ضرورت ہے، شائع شدہ میرے کسی آرٹیکل کے بارے میں آپ کے پاس مجھ سے بہتر معلومات ہیں تو خدا را وہ مجھ سے بھی شیئر کریں، ہو سکتا ہے کہ تاریخ کی بعض کڑیاں مزید سلجھ سکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد عبیداللہ علوی
****************************** 
اگر شمالی پنجاب کا ذکر ہو اور اس کے فطری اجلے پن اور حسن کا تذکرہ نہ ہو تو یہ خود حسن فطرت سے لبریز اس علاقے اور یہاں کے لوگوں کے ساتھ زیادتی ہو گی، یہ ذکر ہے سمالی پنجاب کی آخری یونین کونسل دیول کا، جس کے بہترین دماغ پاک فوج اور سول حکومت کی پالیسی سازی میں اپنا اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں اور آج بھی اپنی قومی خدمات کے سلسلے میں سر فہرست ہیں۔ جنرل انیس عباسی، خاقان عباسی، شاہد خاقان عباسی اور پیر صاحب دیول شریف پیر عبدالمجید احمد علوی دیول کا وہ مستند حوالہ ہیں جن کا کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا بلکہ ان ہی کی وجہ سے اوسیا کی یہ ڈھوک دیول آج شہرت کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔

دیول۔۔۔۔۔۔۔ ماضی بعید کے کسی دور میں بھی کسی بھی حوالے سے کوئی تاریخی، تمدنی اور علمی نشانی نہیں ملتی اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دیول نمب رومال کی اس عہد میں ایک رکھ یا شاملات تھی اور اس کے سارے لوگ دروازہ ملکوٹ، نمب اور پلک یونین کونسل سے تعلق رکھتے ہیں،انیسویں صدی کے آغاز تک دیول اور نمب کا مرکزی سیاسی مقام اوسیا تھا جہاں گزشتہ آٹھ سو سال سے گکھڑ دور اقتدار میں بلدیاتی نظام کا نیوکلس بھی تھا اور یہاں پر شمالی مری کے لوگوں کے مقدر کے فیصلے ہوتے تھے،اوسیاہ کا وہ دیوان (موجودہ دور کی یونین کونسل کا دفتر) جو گکھڑ اقتدار کے بعد مقامی کھتریوں کی لوٹ مار کا گودام، انیسویں صدی کے وسط کے بعد غیر ملکی سیاحوں کا ریسٹ ہائوس اور اٹھارہ سو ستر کے عشرہ سے کوسار کی قدیم ترین علمی درسگاہ کا روپ اختیار کئے ہوئے ہے، اسی سکول نے ماضی کے اوسیاہ کی جگہ اس کی ڈھوک دیول کو اس کی علمی دماغوں کی بدولت اتنا سربلند کیا کہ اب ہر حوالے سے  اوسیا نہیں بلکہ دیول کی ہی بلے بلے ہے۔
اوسیاہ سے متعلق مختلف نظریات
اوسیاہ قبل از اسلام کے ایک کیٹھوال سردار عیس یا عبس خان (اس طرح کے نام جناب صبیر ستی ایڈووکیٹ کی کتابوں ستی سماج اور تاریخ ستیاں میں موجود کیٹھوالوں کے شجروں میں بھی ملتے ہیں) کے نام پر دسویں صدی میں آباد ہوا تھا، وہ بھی باسیاں کے باس خان نامی سردار باس خان کی طرح اپنے وقت کا ایک مہمان نواز اور شیو کا وہ پجاری یا عقیدت مند تھا جو دیول کے مندر میں کشمیر سے ٹیکسلا آنے اور جانے والوں (خواہ وہ یاتری ہوتے ئا طالبعلم) اپنے مہا مہنت شری دیول کرشن کی قربت چاہتا تھا، ڈاکٹر لارنس اے باب اپنی کتاب ابسنٹ لارڈ، ایکسکیٹس اینڈ کنگز ان اے جین ریشوایل کلچر کے صفحہ دو سو گیارہ کے نوٹس  میں تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے لکھتا ہے کہ:
۔۔۔۔۔ راجستھان میں ایک گائوں ملپور پٹن جسے اوسیا بھی کہا جاتا تھا اس میں ڈھونڈی مل نامی ایک سادھو ریتا تھا، اس نے اپنے ایک چیلے کو خیرات وغیرہ لانے کیلئے اس علاقے میں بھیجا مگر وہاں کے لوگوں نے انہیں کچھ نہ دیا جس پر اس سادھو نے اس گائوں کو ویران کر دیا،
۔۔۔۔۔۔۔۔ اوسیا ایک دیوی کا نام بھی ہے جہاں نوراتری (نو راتیں) سال میں دوبار ماہ چیت اور اسوج میں بسر کرنی پڑتی ہیں اور یہاں پر اس دیوی پر نذرانے نچھاور کرتے ہیں، یہاں پر ایک پجارن ساسیا ماتا رہتی تھی جس نے جین مت قبول کیا تھا اور اس نے یہاں مندر بنایا،
۔۔۔۔۔۔۔۔ اوسیا نامی گائوں میں جین مت کے بانی مہاویر کا مندر بھی موجود ہے۔
 ایک اور کتاب راج راپسودیس، ٹویزم، ہریٹیج اینڈ دی سیڈکشن آف ہسٹری کا مرتب ڈاکٹر اہم ویسگرائو صفحہ ایک سو اڑسٹھ پر لکھتا ہے کہ راجستھان میں اوسیا دیوی کی ماں کا نام اوسیا ماتا یا اوسیا کا بھیرو تھا۔
وی اے سانگیو اپنی کتاب جین کمیونیٹی، اے سوشل سروے کے صفحہ تریاسی پر لکھتا ہے کہ بھارت میں مرواڑ کے علاقے میں ایک قصبہ اوساوالا کا ہے جس کی اصل اوسیا ہی ہے۔
اگر ان روایات کو پیش نظر رکھ کر تحصیل مری کے اس علاقہ کا قدیم تاریخی تناظر میں مذہبی تجزئیہ کیا جائے تو (راقم الحروف کی ذاتی رائے کے مطابق) یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ہندو مذہب سے قبل اس خطہ کوہسار میں قدیم جین مت رائج تھا، سنسکرت میں جین کا مطلب نفس کشی یا نفس پر فتح ہے اور اس کے ماننے والے عدم تشدد، عدم مطلق العنانیت وغیرہ پر اعتقاد رکھتے ہیں، اس طرح یہ حقیقت بھی تقریباً طے ہو جاتی ہے کہ اوسیا کا یہ علاقہ جین مت کا گڑھ تھا اور موجودہ ہائر سیکنڈری سکول یا پڑائو کا مقام پر وہ مندر قائم تھا جہاں اوسیا دیوی کی مورت رکھی ہوئی تھی اور اس کے پجاری وہاں پوجا کرتے تھے، تین ہزار سال قبل جب فارس کے کیٹھوالوں اور وسط ایشیا سے آریائی  راجپوتوں نے یہاں قدم رکھا تو جین مت کی جگہ ہندو مت کے شیو دیوتا کا مذہب رائج کیا گیا، انہوں نے اوسیا کی جگہ دیول مندر کی مناسبت سے اس علاقے کا نام ہی بدل کر دیول رکھ دیا اور اوسیا محض اس کی ایک ڈھوک بن گئی۔ 
 دیول کہتے کس کو ہیں اور اس کا پس منظر کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ 
اس کا جواب جاننے کیلئے انڈولوجی (قدیم ہند کو سمجھنے کا علم) سے رجوع کرنا پڑے گا، قدیم ہند کے متنازعہ قانون ساز منو جی کی منو سمرتی کہتی ہے کہ یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں ھندو شیو دیوتا کی مورتی کے آگے اپنا ماتھا ٹیکتے ہیں، سنسکرت ڈکشنری میں اسے سمال ٹمپل کے معانی دئے گئے ہیں، معروف ماہر علم البشریات (انتھروپولوجی) عزیز احمد اپنی کتاب پاکستان سٹوپاز، اکونومیا اینڈ میں دیول کو بدھ مذہب کے سٹوپا کا نام دیتے ہیں، یہ افغان لفظ بھی ہے جو فن مصوری اور علامت سازی کیلئے استعمال ہوتا ہے،قدیم ہندوستان اور جدید بھارت میں دیوتائوں اور لوگوں کے نام بھی ہوتے ہیں جن میں ایک دیوتا دیول کرشن بھی ہے، قدیم گجرات کے حکمران رائے کارن کی اس بیٹی کا نام بھی دیول رانی تھا جس کے افیئر ہندوستانی حکمران علائوالدین خلجی کے بیٹے خضر خان کے ساتھ تھے، وارث شاہ کی طرح امیر خسرو نے  بھی اپنی مثنوی میں ان شاہی ہیر رانجھا کا ذکر مزے لے لیکر کیا ہے۔ای جے بریل کے فرسٹ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کی جلد چہارم میں اس معاشقے کی تصدیق کی ہے اور بتایا ہے کہ اس شاہی جوڑے نے چودہ اپریل تیرہ سو بیس کی  شب شادی بھی کر لی تھی،جرنل آف  پاکستان ہسٹوریکل سوسائیٹی ، دوہزار پانچ کے مطابق دیول ایک ہندو دیوی کا نام بھی ہے جبکہ بینی گپتا اپنی کتاب میجیکل بیلیف انڈ سپر سٹیشنز میں ضیاء الدین برنی کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ اسی دیول رانی کی بیکا نیر میں دیول دیوی کے طور پر پوجا بھی کی جاتی ہے، رائیٹنگ ان انڈیا، دی ٹونٹی انتھ سنچری کی مصنفہ سوزی جے تھاروکی جے للیتا کے مطابق دیول پدما کے نام سے ایک بنگلہ دیشی نژاد بھارتی ناول نگار زلیخا سانیال نے انیس سو چونسٹھ میں ایک ناول لکھا تھا جس کے معنی دیوار کے پھول کے ہیں، معروف اسلامی مورخ طبری کے مطابق دیول کو عربی میں دیبل کہتے ہیں اور اس کے لئے طبری نے موجودہ بن قاسم پورٹ کراچی کے قریب دیبل کا حوالہ دیا ہے اور اسی کو ہسٹاریکل سوسائیٹی اسلام آباد کی شائع شدہ کتاب پروسیڈنگ آف دی پاکستان ہسٹری کونسل میں بھی معتبر مانا گیا ہے۔ جدید بھارت میں ممبئی کی فلمی صنعت کے راجکمار اور راجکماریاں ابھے دیول، دھرم سنگھ دیول (دھرمندر) بوبی دیول اور سنی دیول سے کون آشنا نہیں، بالخصوص نئی نسل کے وہ بانکے جو زندہ ہی بھارتی فلمیں دیکھ کر رہتے ہیں۔

دیول شمالی پنجاب کا پنجاب ہزارہ کے بائونڈری آڑی پر واقع ایک ماڈل ویلیج ہی نہیں اس نام سے پاکستان۔ افغانستان اور بھارت میں کثرت سے گائوں  بھی ہیں،  دیگر دیول نامی گائوں میں شاردہ آزاد کشمیر، ضلع پزاور میں دیول گڑھی،  دریائے سندھ پر وہ مقام جہاں بیٹی سے شادی کرنے والے پرتھوی راج کو اس کے بیٹے  بھیما نے گیارہ سو پچاسی میں قتل کیا تھا دیول کہلاتا ہے،  افغانستان میں روس کے خلاف جس زیرو پوائنٹ سے جہاد کا آغاز کیا گیا تھا وہ بھی سرخ دیول کے نام سے جانا جاتا ہے،بھارت میں دیول دیپ کے نام سے ایک مندر بھی ہے جہاں راجہ چندر ورما نے آخری سانس لی تھی ، ماہرین انڈولوجی کے مطابق دیول دیپ کے معنی اس خدا کے ہیں جو اپنا خاندان بھی رکھتا ہے تاہم یہ معنی مشکوک ہیں کیونکہ دیپ کا معنی سنسکرت میں روشنی کا دیا یا مشعل ہوتا ہے، انگریز سیاح آرتھر نیل نے اپنی کتاب دی لیجیسی آف کشمیر، لداخ اینڈ سکردو میں پہلی بار اٹھارہ سو ستر  میں دنیا کو مری کے اس سرحدی قصبے سے روشناس کرایا تھا تا ہم اٹھارہ سو چتھتیس میں جب ہری سنگھ نلوہ کی فوج نے جد دیول پر حملہ کیا اور یہاں لوٹ مار کی تو یہاں کے لوگوں نے پیر عبدالمجید احمد علوی کے دادا مولانا پیر محمد ہاشم کی قیادت میں ان کا مقابلہ کیا اور جام شہادت نوش کیا، سی موقع پر پھگواڑی کے دارا نامی مقام پر ایک سکھ جنرل کو جہنم واصل کیا گیا تھا، دیول کے شہداء کی قربانی کا یہ اثر ہوا کہ اٹھارہ سو ستاون میں مری شہر پر قبضہ اور اس کے بارے میں پورا نیٹ ورک قائم کرنے کا منصوبہ اسی دیول کی ڈھوک سیداں میں بنایا گیا، اس کے منصوبہ ساز دو سید برادران سید امیر علی اور سید اکرم علی  تھے اور اسے سردار شیر باز خان نے بروئے کار لانا تھا مگر ایک مقامی خاتون نے اپنے بھائی کی جان بچانے کیلئے یہ منصوبہ دشمن تک پہنچا دیا جس کی ناکامی کے بعد تحصیل مری کا کوئی گائوں ایسا نہیں تھا جہاں پر مقامی آبادی کا قتل عام نہ کیا گیا ہو اور ایک ماہ تک وہاں کے سر فروشوں کے بذر آتش ہونے والے گھروں  سے دھواں نہ اٹھتا رہا ہو، آخری جنگ ازادی کے ہیرو باز خان اور ان کے بیٹوں کو توپ زد کیا گیا اور سید برادران کی زندہ کھال اتاری گئی ، ان کی ڈھوک سیداں کو دیول سے کاٹ کر یو سی بیروٹ کا حصہ بنا دیا گیا۔

بعض کولوں کا خیال ہے کے کہ دیول اور ہزارہ کی صوبائی بائونڈری یعنی آڑی انگریزوں نے بنائی تھی، مگر یہ درست نہیں، یہ بائونڈری سولہویں صدی میں دھونڈ عباسیوں کے دو خاندانوں ہجال اور لہرال میں اراضی کے ایک جھگڑے کو نمٹانے کی نشانی ہے جسے سکھوں اور انگریزوں دونوں نے برقرار رکھا، انگریزوں نے صرف اتنا رد و بدل کیا کہ انہوں نے دیول کی ڈھوک سیداں کو پنجاب سے نکال کر ہزارہ کی یو سی بیروٹ کے ساتھ ملا دیا۔(بحوالہ تاریخ گکھڑاں از راجہ حیدر زمان کیانی)

سترھویں صدی میں گکھڑوں نے یہ  سمجھ لیا تھا کہ تعلیم کے بغیروہ دیول میں اقتدار بر قرار نہیں رکھ سکتے کیونکہ مقامی قبائل ان کے "کنکوت نامی ایک ٹیکس کیخلاف بغاوت پر آمادہ تھے ، راولپنڈی گزیٹئر کے مطابق گکھڑوں نے وسط دیول میں ایک سکول بنانے کا قصد کیا اور اس کے انتظامات کی ذمہ داری پیر صاحب دیول شریف کے ایک بزرگ عبداللہ علوی کے کندھوں پر ڈالی، اور اس کے عوض ان کی تمام ذمہ داریاں بھی گکھڑ حکومت نے اپنے سر لیں، انیسویں صدی کے آغاز میں گکھڑ اقتدار کے خاتمہ اور سکھوں کی وجہ سے سیاسی ابتری کے دوران اس سکول نے علی گڑھ یونیورسٹی جیسی تحریک کی بنیاد ڈالی اور سکھوں سے نفرت کی یہ صورتحال پیدا ہوئی کہ نہ صرف اٹھارہ سو چھتیس میں ہری سنگھ نلوہ نے یہاں چڑھائی کی بلکہ مولانا ہاشم علوی سمیت یہاں کے تین ہزار حریت پسندوں کو شہید کیا اور ان کی لاشوں کو پنجاب ہزارہ سرحد پر موجودہ کرکٹ سٹیڈیم کے مقام پر قلعہ بنیادوں میں ڈال کر دیواریں اٹھائی گئیں مگر اس کے باوجود اہلیان دیول اور پیر صاحب کے اجداد نے یہ سکول بند نہ ہونے دیا، آج کل یہ تاریخی سکول پھر قلعہ کے مقام پر علم کی کرنیں بکھیر رہا ہے، اوسیا کا زمینداری پرائمری سکول بعد میں مڈل، پھر ہائی اور اب ہائر سیکنڈری سکول کی شکل اختیار کر چکا ہے، اس کے پہلا طالبعلم راجہ دلیر خان تھے جبکہ اس علمی درسگاہ سے سابق وزیر اعلی اور موجودہ گورنر  کے پی کے سردار مہتاب احمد خان، جنرل (ر) ریاض عباسی،  بریگیڈئر تاج عباسی، ائر کموڈور خاقان عباسی، سابق صدر ضیا الحق کے معالج حکیم قاضی ظفیرالحق علوی چشتی، ڈاکٹر حکیم محمود احمد خان جدون قادری، جنرل انیس عباسی، معروف اعوان دانشور محبت حسین اعوان سمیت بے شمار نامور لوگ فارغ التحصیل ہیں،بریگیڈئر تاج عباسی نے ماہنامہ ڈیفنس جرنل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ اوسیا ہائی سکول میں ہمارے اساتذہ میں ہندو اور سکھ بھی شامل تھے جو بغیر کسی مذہبی تعصب کے تعلیم ڈیلیور کر رہے تھے،بریگیڈئر صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے مسلمان اساتذہ میں  محمد خاقان اور (باسیاں کے) قاضی ظفیرالحق علوی چشتی سب سے قابل اور نمایاں معلمین تھے، سکھ انسائیکلو پیڈیا کے مطابق ہائی سکول اوسیا کے ریاضی کے  ایک ہندو استاد بھگت سنگھ کوانیس سو سنتالیس میں اس وقت اس کے ہونہار طلبا نے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تاہم اسے اس کی بھنک پڑ گئی اور وہ دریائے جہلم کی طرف بھاگ نکلا مگر تیراکی نہ جاننے کی وجہ سے ڈوب گیا، دیول کا پہلا گرلز سکول انیس سو چوبیس میں قائم ہوا جبکہ اس کی طالبہ سعیدہ خاتون اپ گریڈیشن کے بعد ہائر سیکنڈری کا درجہ ملنے کے بعد اس کی پہلی پرنسپل تعینات ہوئیں، اس وقت دیول یونین کونسل میں دو بنک، ایک وٹرنری ہسپتال، تین لنک روڈز اور ایک یوٹیلیٹی سٹور موجود ہے اور اب اسے ماڈل ویلیج قرقر دینے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔

اہلیان دیول نے بالواسطہ ہی سہی مگر قیام پاکستان سے پہلے اپنا اہم کردار ادا کیا، حضرت پیر فقیراللہ بکوٹیؒ نے اوسیا میں سکول کے  سامنے ایک مسجد کی بنیاد ڈالی اور کوہسار میں پہلا جمعہ پڑھایا، سب سے اہم بیداری کی لہر مارچ انیس سو چوالیس میں پیدا ہوئی جب یہاں کے قلعہ گرائونڈ میں مسلم لیگ کا سردار نور خان کی زیر صدارت ایک جلسہ ہوا، جس کے مہمان خصوصی حکیم عبدالخالق علوی تھے، اس سے مقامی ہندو آبادی اس قدر خوفزدہ ہوئی کہ ان کی اپیل پر مری انتظامیہ نے برطانوی فوج کی جاٹ رجمنٹ اور پولیس کی بھاری نفری دیول میں تعینات کر دی،  چھبیس جولائی کو جب قائد اعظم سری نگر سے مری جا رہے تھے تو لوئر دیول کے مقام پر اہلیان دیول نے بابا امیر احمد خان کی قیادت میں اپنے محبوب رہنما کا استقبال کیا اور انہیں گلدستہ پیش کیا،

قیام پاکستان کے بعد اہلیان دیول اوسیاہ نے علاقائی اور قومی سطح پر بھی شاندار کارنامے انجام دئے، عسکری محاذ پر دیول کے فرزند انیس سو پینسٹھ اور اکہتر کی جنگوں میں اگلے مورچوں پر نظر آتے ہیں، جہاد افغانستان میں بھی ان کے کارنامے سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں، اس وقت شاہد خاقان عباسی وفاقی وزیر پٹرولیم ہیں تاہم ان کے ووٹروں کا ان سے جائز گلہ بھی ہے کہ وہ اپنے علاقہ کے مسائل پر توجہ نہیں دے رہے، خلاصہ کلام یہ ہے کہ اٹھارویں صدی کے اوسیا کی ایک غیر معروف ڈھوک دیول اس لئے آج دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے کہ یہاں پر کوہسار کی سب سے پہلی درسگاہ کا قیام عمل میں آیا اور اس کے فرزندوں نے پاکستانی قوم کو کچھ ڈیلیور کیا ، ورنہ ہزارہ کی پڑوسی یونین کونسل بیروٹ کے سکولوں کے انہدام پر تو سرکل بکوٹ کے حکمرانوں کے دلوں میں لڈو پھوٹ رہے ہیں اور بیروٹ کے بکرے اپنے قصائیوں کے ہاتھ میں خون آلود چھرے دیکھ کر انہیں چوم بھی رہے ہیں۔ (یہ آرٹیکل اٹھائیس اکتوبر دوہزار پندرہ کے روزنامہ آئینہ جہاں کے کلر ایڈیشن میں شائع ہوا ہے)


حوالہ جات  
 *ابسنٹ لارڈ، ایکسکیٹس اینڈ کنگز ان اے جین ریشوایل کلچر از ڈاکٹر لارنس اے باب
*راج راپسودیس، ٹویزم، ہریٹیج اینڈ دی سیڈکشن آف ہسٹری از ڈاکٹر اہم ویسگرائو
*جین کمیونیٹی، اے سوشل سروے از وی اے سانگیو
*تاریخ گکھڑاں از راجہ حیدر زمان کیانی
*پاکستان سٹوپاز اینڈ اکونومیا از عزیز احمد 
*فرسٹ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام، جلد چہارم
*جرنل آف  پاکستان ہسٹوریکل سوسائیٹی ، دوہزار پانچ
*میجیکل بیلیف انڈ سپر سٹیشنزازبینی گپتا
*رائیٹنگ ان انڈیا، دی ٹونٹی انتھ سنچری از سوزی جے تھاروکی جے للیتا
*پروسیڈنگ آف دی پاکستان ہسٹری کونسل اسلام آباد
*دی لیجیسی آف کشمیر، لداخ اینڈ سکردوازآرتھر نیل 
*ماہنامہ ڈیفنس جرنل کو بریگیڈئر تاج عباسی کا انٹرویو 
*سکھ انسائیکلو پیڈیا 
 مقامی اردو مصادر و مراجع  
*کیگوہر نامہ، ترجمہ از ڈاکٹر سید عبداللہ (یہ گکھڑوں کی سرکاری تاریخ ہے، یہ کتاب مجھے فائز اختر کیانی صاحب نے مرحمت فرمائی ہے)
*تاریخ مری از نور الہی عباسی 
*داستان مری از پروفیسر کرم حیدری
*تاریخ علوی اعوان از محبت حسین اعوان
*ید بیضا از حضرت پیر محمد ازہر بکوٹیؒ
*خروج جنت سے عروج عباسیہ تک از نعیم عباسی (برائے شجرہ جات اہلیان بیروٹ) 
*ستی سماج از صبیر ستی ایڈووکیٹ (کوہسار کا زرعی تمدن اور اس کا قبائل سے تعلق)
*تاریخ ستیاں از صبیر ستی ایڈووکیٹ (کیٹھوالوں کے شجروں کیلئے استفادہ کیا)
 بیرونی روابط ، ویب سائٹس
1 یونین کونسل دیول
2 دیول سے دیول شریف تک
3 دیول کا جغرافیہ 
4 دیول میں لینڈ سلائیڈنگ
5 دیول میں لینڈ سلائیڈ۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔کیوں؟
6 مختصر تاریخ مری
7 پیر صاحب دیول شریف کا ایک یادگار خطبہ 
8  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے دیول شریف بھی دیکھا 
میں کون ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بریگیڈئر تاج عباسی کا انٹرویو
10  مری کی سیاسی تاریخ از وجیہہ احمد عباسی، کنڈاں
11 اوسیا اور بیروٹ کی تعلیمی تاریخ  



>NEXT>